تفسير ابن كثير



سورۃ الزخرف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُمْ مُنْتَقِمُونَ[41] أَوْ نُرِيَنَّكَ الَّذِي وَعَدْنَاهُمْ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ[42] فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ[43] وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ[44] وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ[45]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پس اگر کبھی ہم تجھے لے ہی جائیں تو بے شک ہم ان سے انتقام لینے والے ہیں۔ [41] یا ہم واقعی تجھے وہ ( عذاب) دکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تو بے شک ہم ان پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں۔ [42] پس تو اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھ جو تیری طرف وحی کیا گیا ہے، یقینا تو سیدھے راستے پر ہے۔ [43] اور بلاشبہ وہ یقینا تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے ایک نصیحت ہے اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا ۔ [44] اور ان سے پوچھ جنھیں ہم نے تجھ سے پہلے اپنے رسولوں میں سے بھیجا، کیاہم نے رحمان کے سوا کوئی معبود بنائے ہیں، جن کی عبادت کی جائے؟ [45]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پس اگر ہم تجھے یہاں سے لے بھی جائیں تو بھی ہم ان سے بدلہ لینے والے ہیں [41] یا جو کچھ ان سے وعده کیا ہے وه تجھے دکھا دیں ہم ان پر بھی قدرت رکھتے ہیں [42] پس جو وحی آپ کی طرف کی گئی ہے اسے مضبوط تھامے رہیں بیشک آپ راه راست پر ہیں [43] اور یقیناً یہ (خود) آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے نصیحت ہے اور عنقریب تم لوگ پوچھے جاؤ گے [44] اور ہمارے ان نبیوں سے پوچھو! جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا کہ کیا ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کیے تھے جن کی عبادت کی جائے؟ [45]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اگر ہم تم کو (وفات دے کر) اٹھا لیں تو ان لوگوں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے [41] یا (تمہاری زندگی ہی میں) تمہیں وہ (عذاب) دکھا دیں گے جن کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے ہم ان پر قابو رکھتے ہیں [42] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ بےشک تم سیدھے رستے پر ہو [43] اور یہ (قرآن) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے اور (لوگو) تم سے عنقریب پرسش ہوگی [44] اور (اے محمدﷺ) جو اپنے پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے ہیں ان سے دریافت کرلو۔ کیا ہم نے (خدائے) رحمٰن کے سوا اور معبود بنائے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے [45]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 41، 42، 43، 44، 45،

باب

پھر فرماتا ہے کہ ” اگرچہ ہم تجھے یہاں سے لے جائیں پھر بھی ہم ان ظالموں سے بدلہ لیے بغیر تو رہیں گے نہیں اگر ہم تجھے تیری آنکھوں سے وہ دکھا دیں جس کا وعدہ ہم نے ان سے کیا ہے تو ہم اس سے عاجز نہیں “۔ غرض اس طرح اور اسطرح دونوں صورتوں میں کفار پر عذاب تو آئے گا ہی۔ لیکن پھر وہ صورت پسند کی گئی جس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت زیادہ تھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت نہ کیا جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو مغلوب نہ کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ٹھنڈی نہ کر دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جانوں اور مالوں اور ملکیتوں کے مالک نہ بن گئے۔ یہ تو ہے تفسیر سدی رحمہ اللہ وغیرہ کی۔

لیکن قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے اٹھا لیے گئے اور انتقام باقی رہ گیا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں امت میں وہ معاملات نہ دکھائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندیدہ تھے بجز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور تمام انبیاء علیہ السلام کے سامنے ان کی امتوں پر عذاب آئے ہم سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم کرا دیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر کیا کیا وبال آئیں گے اس وقت سے لے کر وصال کے وقت تک کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھل کھلا کر ہنستے ہوئے دیکھے نہیں گئے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:30872:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏

حسن رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح کی روایت ہے ایک حدیث میں ہے ستارے آسمان کے بچاؤ کا سبب ہیں جب ستارے جھڑ جائیں گے تو آسمان پر مصیبت آ جائے گی میں اپنے اصحاب کا ذریعہ امن ہوں میرے جانے کے بعد میرے اصحاب پر وہ آ جائے گا جس کا یہ وعدہ دئیے جاتے ہیں ۔ [صحیح مسلم:2531] ‏‏‏‏
8247

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ” جو قرآن تجھ پر نازل کیا گیا ہے جو سراسر حق و صدق ہے جو حقانیت کی سیدھی اور صاف راہ کی راہنمائی کرتا ہے تو اسے مضبوطی کے ساتھ لیے رہ۔ یہی جنت نعیم اور راہ مستقیم کا رہبر ہے اس پر چلنے والا اس کے احکام کو تھامنے والا بہک اور بھٹک نہیں سکتا یہ تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے ذکر ہے “ یعنی شرف اور بزرگی ہے۔
8248

بخاری شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ امر (‏‏‏‏یعنی خلافت و امامت) قریش میں ہی رہے گا جو ان سے جھگڑے گا اور چھینے گا اسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ گرائے گا جب تک دین کو قائم رکھیں ۔ [صحیح بخاری:7139] ‏‏‏‏

اس لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرافت قومی اس میں ہے کہ یہ قرآن آپ ہی کی زبان میں اترا ہے۔ لغت قریش میں ہی نازل ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ اسے یہی سمجھیں گے۔ انہیں لائق ہے کہ سب سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ عمل بھی انہی کا اس پر رہے بالخصوص اس میں بڑی بھاری بزرگی ہے ان مہاجرین کرام رضی اللہ عنہم کی جنہوں نے اول اول سبقت کر کے اسلام قبول کیا۔ اور ہجرت میں بھی سب سے پیش پیش رہے اور جو ان کے قدم بہ قدم چلے۔

ذکر کے معنی نصیحت کے بھی کئے گئے ہیں۔ اس صورت میں یہ یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لئے اس کا نصیحت ہونا دوسروں کے لئے نصیحت نہ ہونے کے معنی میں نہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت «لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ» [21-الأنبياء:10] ‏‏‏‏ یعنی ” بالیقین ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل فرمائی جس میں تمہارے لیے نصیحت ہے کیا پس تم عقل نہیں رکھتے؟ “ اور آیت میں ہے «وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ» [26-الشعراء:214] ‏‏‏‏ یعنی ” اپنے خاندانی قرابت داروں کو ہوشیار کر دے “۔ غرض نصیحت قرآنی رسالت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم عام ہے کنبہ والوں کو قوم کو اور دنیا کے کل لوگوں کو شامل ہے۔

پھر فرماتا ہے ” تم سے عنقریب سوال ہو گا کہ کہاں تک اس کلام اللہ شریف پر عمل کیا اور کہاں تک اسے مانا؟ تمام رسولوں نے اپنی اپنی قوم کو وہی دعوت دی جو اے آخرالزمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو دے رہے ہیں “۔

کل انبیاء کے دعوت ناموں کا خلاصہ صرف اس قدر ہے کہ انہوں نے توحید پھیلائی اور شرک کو ختم کیا جیسے خود قرآن میں ہے کہ ” ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا اوروں کی عبادت نہ کرو “۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں یہ آیت اس طرح ہے «وَاسْأَلْ الَّذِينَ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ قَبْلك رُسُلنَا» پس یہ مثل تفسیر کے ہے نہ تلاوت کے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

تو مطلب یہ ہوا کہ ان سے دریافت کر لے جن میں تجھ سے پہلے ہم اپنے اور رسولوں کو بھیج چکے ہیں۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبیوں سے پوچھ لے یعنی معراج والی رات کو جب کہ انبیاء علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جمع تھے کہ ہر نبی علیہ السلام توحید سکھانے اور شرک مٹانے کی ہی تعلیم لے کر ہماری جانب سے مبعوث ہوتا رہا۔
8249



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.